This old website has been closed, Please redirect to our new website
ویسا ہی اس کا نتیجہ ہوتا ہے چنانچہ ہر سفر لازماً اپنے اندر موجود ثمرات کو آشکار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور انہی ثمرات کے حصول کے لیے وہ سفر کیا جاتا ہے۔ عربی لفظ سفر سے مشتق ایک لفظ اِسفار بھی ہے جس کا مطلب کسی چیز کو واضح کرنا یا روشن کرنا ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کو پیش نظر رکھنے ہوئے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں فرماتے ہیں کہ “سفر کو سفر اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مَردوں کے اخلاق عیاں کرتا ہے، مطلب یہ کہ یہ ہر انسان کے اُن اچھے اور بُرے اخلاق کو ظاہر کرتا ہے جن کا وہ شخص حامل ہوتا ہے۔”
کتاب الاسفار ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تمام موجودات بشمول الوہیت – کچھ وجوہ سے – ایک ایسے عالمی سفر کا حصہ ہیں جس کی دنیا اور آخرت میں کوئی انتہا نہیں، انسان ہمیشہ سے ایک مسافر ہے جسے ایک حالت پر قرار نہیں کیونکہ وجود کی بنیاد ہی حرکت پر ہے اور اگر یہ وجود سکون کرے گا تو اپنی اصل یعنی کہ عدم کر طرف لوٹ جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو یہاں اصلاً کوئی سکون نہیں ہر چیز حرکت میں ہے اور حرکت ہی اس چیز کو اس کی حالت پر باقی رکھے ہوئے ہے چنانچہ ہم جب تک سفر میں رہیں گے یہ عارضی وجود ہمارے ساتھ رہے گا اور جیسے ہی ہمارا سفر ختم ہو گا ہمارا گھر اور ٹھکانۂ اصلی یعنی کہ عدم ہمیں اپنے گھیرے میں لے لے گا۔ اگر ہمیں اتنی بات سمجھ آ جائے کہ ہمارا وجود اس حرکت سے قائم ہے اور سکون میں اس کی ہلاکت ہے تو ہمیں یقین ہو گا کہ ہم سفر میں ہیں