This old website has been closed, Please redirect to our new website
The author of this book, "Risala al-Futuh al-Makkiyya fi Ma'rifat al-Asrar al-Malikiyya wa al-Mulkiyya," states:
"I have named it after the divine secrets that Allah Almighty revealed to me during my circumambulation of His blessed house or while I was in a state of meditation in the sacred precincts. I have compiled it and included subtle meanings in it, and I have made it into honorable gates." (Al-Safar - 1)
In chapter 366 of Futuh al-Makkiyya, the author writes: "Whatever I mention in my writings and lectures is derived from the Quran and its treasures. I have been given the keys to understanding and have been assisted in its composition."
In chapter 73, it is stated: "Whomever wisdom is bestowed upon will be given much good in return...I swear by Allah that every letter in it was written with divine inspiration and spiritual intuition, or was dictated by divine revelation." This book is an abbreviated and condensed version of our methodology, because it is a large book and it is necessary for it to contain the fundamentals and principles of the path to Allah, and as for the relationship of children and branches, they are beyond count." (Al-Safar - 9)
If we were to begin describing the stages and secrets of spiritual wayfaring, it would deviate us from our purpose of focusing on the essentials of this vital knowledge that the people of the Sufi path require...Despite the length and breadth of this book, and the abundance of its chapters and sections, we have not fully expressed even one thought regarding the Sufi path. (Al-Safar - 16)
The Futuhat al-Makkiyya is the most important books of Sheikh Akbar Muhyiddin Muhammad Ibn Arabi Al-Ta'i Al-Hatimi. It is not without reason to say that it is an encyclopaedia of Sufism and the source and foundation of Sufi knowledge.
Ibn al-Arabi began compiling this book in the city of Mecca in the year 599 AH, and completed it in Damascus in the month of Safar in the year 629 AH. He wrote, "This is my original writing, as I do not prepare drafts of my works."
However, in the year 632 AH, he decided to rewrite the entire book himself and adopted the first manuscript as the standard copy. During this process, he made both additions and deletions to the original manuscript. This process took four years, and the revised version was completed in the year 636 AH.
الفتوحات المکیہ کا شمار شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الطائی الحاتمی کی اہم ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں کہ یہ تصوف کا جامع انسائیکلوپیڈیا ہے اور صوفی معارف کا مصدر اور اساس ہے۔ اس کتاب کے بارے میں شیخ اکبر لکھتے ہیں:
نے اِس کتاب کا نام : "رسالة الفتوحات المكية في معرفة الأسرار المالكية والملكية" ركھا ہے۔ اور اس میں زیادہ تر وہ باتیں ذکر کی ہیں جو اللہ تعالی نے مجھ پر اپنے مکرم گھر کے طواف کے دوران یا حرم شریف میں مراقبے کی حالت میں کھولیں، میں نے اِسے شرف والے ابواب بنایا اور اِس میں لطیف معانی ذکر کیے۔” (السفر –1) فتوحات مکیہ کے باب نمبر 366 میں لکھتے ہیں: میں اپنی تصانیف اور مجالس میں جو کچھ بھی ذکر کرتا ہوں تو وہ حاضرت قرآن اور اس کے خزانوں میں سے ہے۔ مجھے اس میں فہم کی کنجیاں اور اس کی امداد دی گئی ہے۔ باب نمب73 میں فرماتے ہیں: جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دے دیا گیا ... اللہ کی قسم میں نے اس میں ہر حرف املائے الہی اور القائے ربانی یا وجودی شعور میں روحانی القا سے لکھار 3 ہے، یہ اصل بات ہے۔ اس کتاب میں ہمارا منہج اقتصار اور حتی الامکان اختصار ہے؛ کیونکہ یہ بڑی کتاب ہے اور لازم ہے کہ اس میں طریق الی اللہ کی امہات اور اصول ہوں، جہاں تک ابناء اور فروع کا تعلق ہے تو وہ تعداد سے باہر ہیں۔ (السفر- 9) اگر ہم سلوک کے مراتب اور اسرار بیان کرنے لگ جائیں تو وہ اس کتاب میں ہمیں ہمارے مقصد سے ہٹا دیں گے جو کہ اقتصاد اور اس ضروری علم پر اقتصار ہے جس کی اہل طریقت کو ضرورت ہے ... اس کتاب کی طوالت و وسعت ، فصول اور ابواب کی کثرت کے باوجود ہم نے اس میں طریقت کی اپنی خواطر میں سے کسی ایک خاطر کو بھی پوری طرح سے بیان نہیں کیا، کہاں طریقت (کا مکمل بیان)!۔ (السفر – 16)
شیخ اکبر نے سن 599 ھ میں شہر مکہ میں اس کی ابتدا کی، اور ماہ صفر 629ھ میں دمشق میں اسے مکمل کیا، اِس کی تکمیل پر لکھتے ہیں: “یہ میری لکھائی میں اصل ہے، کیونکہ میں اپنی تصانیف کا مسودہ بالکل نہیں بناتا۔” لیکن پھر سن 632ھ میں شیخ کو یہ خیال آیا کہ اس موسوعے کو اپنے ہاتھ سے دوبارہ لکھا جائے، اور پہلا نسخہ مسودے کی حیثیت اختیار کر جائے؛ چنانچہ آپ نے اس پہلے نسخے میں اضافہ بھی کیا اور کمی بھی۔ یہ عمل 4 سال کا عرصہ میں سن 636ھ میں مکمل ہوا۔
غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ شیخ اکبر نے صرف اسے دوبارہ لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر جزو کے اختتام پر نسخہ اولی سے اِس کا موازنہ کیا اور اپنے متعدد ساتھیوں کے سامنے سماع کی مجالس میں اس کی مناسب درستگی بھی کی۔ اسی طرح ہر موازنے کے اختتام پر سماع ثبت کی اور حاضرین کے نام بمع تاریخ رقم کیے۔
فتوحات کا یہ دوسرا نسخہ شیخ اکبر کے ہاتھ سے لکھے 10544 صفحات پر مشتمل ہے، آپ نے انہیں 37 جلدوں میں تقسیم کیا ہے، یہ 560ابواب پر مشتمل ہیں۔ آخری جلد کے آخری صفحے پر آپ کے ہاتھ سے لکھی یہ عبارت درج ہے:
“الحمد للہ اس باب کے اختتام پر حتی الامکان اختصار اور اجمال سے مصنف کے ہاتھوں کتاب کا اختتام ہوا، یہ میرے ہاتھ سے لکھا اِس کتاب کا دوسرا نسخہ ہے۔ اس باب کا اختتام جو کہ اس کتاب کا اختتام ہے بروز منگل 24 ربیع الاول سن 636ھ کو ہوا، اِسے اِس کے مصنف محمد بن علی بن محمد بن العربی الطائی الحاتمی – اللہ اسے توفیق دے – نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا۔ یہ نسخہ 37 جلدوں پر مشتمل ہے، اور اس میں پہلے نسخے پر چند اضافات ہیں ، میں اِسے اپنے بیٹے محمد الکبیر کے نام منسوب کرتا ہوں، جس کی ماں فاطمہ بنت یونس بن یوسف امیر الحرمین ہیں، اللہ تعالی اُسے، اُس کی نسل کو اور اس کے بعد مشرق و مغرب بحر و بر کے تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق دے۔”
Futuhat Vol 36-37 (Fehrist) by Ibn al-Arabi Foundation on Scribd